سیالکوٹ: ’چائلڈ لیبر تو اب ماضی کا قصہ بن چکی‘
پنجاب کا شہر سیالکوٹ یوں تو کھیلوں کا سامان بنانے کے لیے مشہور ہے تاہم یہاں کی صنعت اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ شہر میں قائم چھوٹےاور درمیانے درجے کے کارخانے بڑے پیمانے پر سرجیکل آلات اور چمڑے کی مصنوعات بھی تیار کرتے ہیں۔
یہاں تیار کی جانے والی زیادہ تر مصنوعات برآمد کی جاتی ہیں۔ ماضی میں سیالکوٹ میں بننے فٹبال ورلڈ کپ مقابلوں میں استعمال ہو چکے ہیں۔ تاہم زیادہ عرصے کی بات نہیں جب ایک وقت کی اس بڑی صنعت میں بڑے پیمانے پر کم سِن بچوں سے کام لینے کا انکشاف ہوا۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے کڑی تنقید کا سامنا کرنے کے بعد بڑی بین الاقوامی کمپنیوں نے یہاں فٹبال بنوانے کے آرڈر منسوخ کر دیے اور شہر کی صنعت کو بھاری مالی نقصان اٹھانا پڑا۔
شاید یہی وجہ تھی کہ بین الاقوامی فلاحی اداروں اور پاکستانی حکومت نے یہاں کے صنعت کاورں کے ساتھ مل کر شہر کی صنعت سے بچوں سے مزدوری کروانے کے عمل کو ختم کرنے کی منظم کوشش شروع کی۔ مگر کیا یہاں کی صنعت اب مکمل طور پر اس مسئلے سے پاک ہو چکی ہے؟
سیالکوٹ کے تاجروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی فٹبال بنانے کی صنعت کو ایک سازش کے تحت نشانہ بنایا گیا تھا۔ مسئلہ اتنا بڑا نہیں تھا جتنا دکھایا گیا۔ ’اور اب تو یہاں بچوں سے کام کروانے کا تصور ہی نہیں پایا جاتا۔‘
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سیالکوٹ کے ایک صنعتکار اور سپورٹس ویئر یعنی کھیلوں کے لیے کپڑے بنانے کے ایک کارخانے کے مالک میاں عتیق کا کہنا ہے کہ اب آپ شہر کے کسی بھی کارخانے میں بغیر بتائے جا کر دیکھ لیں آپ کو کہیں بھی کم عمر بچے کام کرتے دکھائی نہیں دیں گے۔
’چائلڈ لیبر تو اب ماضی کا قصہ ہو چکی۔‘
تاہم اس مسئلے پر کام کرنے والے فلاحی اداروں کے ماہرین ان کی پہلی بات سے تو متفق ہیں مگر دوسری سے نہیں ہیں۔ کم عمر بچوں سے مزدوری اب بھی کروائی جاتی ہے مگر ایسا کارخانوں کے اندر نہیں بلکہ باہر ہوتا ہے۔
سیالکوٹ میں بچوں سے کام کی روک تھام کے لیے کام کرنے والے ادارے انڈیپینڈنٹ مانیٹرنگ ایسوسیئشن فار چائلڈ لیبر کے سربراہ ناصر ڈوگر نے بی بی سی کو بتایا کہ اب بھی سیالکوٹ میں کچھ صنعتیں ایسی ہیں جن میں بچوں سے کام لیا جاتا ہے اور ان میں سرِفہرست سرجیکل یعنی جراحی آلات بنانے کی صنعت ہے۔
’سرجیکل آلات کی تیاری چونکہ مرحلہ وار ہوتی ہے تو شروع کے مراحل میں بچے خاصی حد تک شریک ہیں۔ مگر یہ کام کارخانوں سے باہر ٹھیکوں پر کروایا جاتا ہے۔‘
کارخانوں کے اندر بچوں سے کام لینے کے حوالے سے قوانین موجود ہیں جن کے مطابق ایسا کرنے والے کو بھاری جرمانے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ تو بعض صنعتکار قوانین میں موجود جھول کا سہارا لیتے ہیں۔ وہ یہ کام باہر ٹھیکے پر دے دیتے ہیں۔
ناصر ڈوگر کا کہنا ہے کہ گاؤں اور دیہاتوں میں بہت سی ایسی ورکشاپس موجود ہیں جہاں ٹھیکیداروں یا دکانداروں کے پاس بیٹھے بچے کام کرتے دکھائی دیتے ہیں مگر قوانین کا دائرہ کار صرف کارخانوں کے اندر تک محدود ہے۔
اس طرح بچے کام تو صنعتوں کے لیے ہی کرتے ہیں، مگر الزام ان پر نہیں آ سکتا اور بچے کارخانوں میں کام کرتے دکھائی بھی نہیں دیتے۔
آئی ایل او یعنی انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے ساتھ مل کر ناصر ڈوگر تقریباٌ دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے بچوں سے کام کی روک تھام کے حوالے سے سرگرم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بچے کسی بھی صنعت کی ضرورت ہرگز نہیں ہیں تو ان سے کام کیوں کروایا جاتا ہے؟
’اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ ان میں سے ایک تو اقتصادی وجہ ہے مگر یہ بنیادی وجہ نہیں ہے۔ ایک بڑی وجہ ہمارے ہاں دی جانے والی تعلیم ہے۔ بچوں کے والدین سمجھتے ہیں کہ یہ ان کے بچوں کو مستقبل میں کمائی کے مواقع کی یقین دہانی نہیں دیتی، اس لیے وہ کوشش کرتے ہیں کہ وہ بچوں سے کام کروائیں تاکہ ان کو کوئی ہنر آ جائے۔‘
سیالکوٹ کے تاجر بچوں سے کام کروانے کے حوالے سے نہ صرف تنقید کا نشانہ بنتے رہے ہیں بلکہ بھاری مالی تقصان بھی اٹھا چکے ہیں۔ تاہم اب وہ کافی خوشحال نظر آتے ہیں۔ شہر میں تاجروں کی شراکت سے بنا ایک ہوائی اڈا اور ان ہی کی بنائی ہوئی ایئر لائن بھی موجود ہے۔
تو سیالکوٹ کی تاجر برادری نے اس مسئلے کے حل کے لیے کیا اقدامات اٹھائے ہیں؟ میاں عتیق کا کہنا ہے کہ شہر کے صنعتکاروں اور تاجروں نے مل کر ایسے بچوں کے والدین کا معاشی بوجھ کم کرنے کے حوالے سے کام کیا ہے، تعلیم و صحت کی سہولیات کی فراہمی کے لیے سکول اور ہسپتال تعمیر کیے گئے ہیں۔
’اس طرح بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں جس کے بعد وہ ٹریننگ سینٹرز میں آ رہے ہیں اور یہاں سے مکمل ٹریننگ لینے کے بعد ہم صنعتکار ان کو نوکری دیتے ہیں اور یہ ایک ایسا منصوبہ ہے جو مستقبل میں جاری رہے گا۔ یہی وجہ ہے کہ چائلڈ لیبر اب یہاں ختم ہو چکی ہے۔‘
ناصر ڈوگر کا ماننا ہے کہ سیالکوٹ کی صنعت خصوصاٌ فٹبال بنانے کی صنعت میں بچوں سے کام کروانے کے رجحان میں خاصی حد تک کمی دیکھنے میں آئی ہے تاہم یہ مسئلہ پوری طرح ختم نہیں ہوا۔
ان کا کہنا ہے کہ ایسے بچوں کی کل تعداد کے حوالے سے اندازہ لگانے کے لیے گزشتہ عرصے میں کوئی سروے یا تحقیق نہیں کی گئی، تاہم ایسا کرنے کی اشد ضرورت ہے خاص طور پر جراحی آلات بنانے کی صنعت میں، تاکہ یہاں کام کرنے والے بچوں کی صحیح تعداد کا اندازہ لگایا جا سکے اور اس کی روک تھام کے لیے اقدامات اٹھائے جا سکیں۔
Post a Comment