Pages - Menu

Friday, 23 June 2017

امریکی شہر بولنگ بروک اور سیالکوٹ ’سسٹر سٹی‘ قرار

بولنگ بروک امریکہ کا تیسرا شہر ہے جو کراچی اور لاہور کے بعد پاکستان کے تیسرے بڑے شہر سیالکوٹ کے ساتھ ’سسٹر سٹی معاہدے‘ میں شامل ہو رہا ہے۔ معاہدے کے نتیجے میں طلبا اور تاجروں کے وفود کے تبادلے ہوں گے اور صنعتی ضروریات کے مطابق فنی تربیت کے مواقع بھی پیدا ہو سکیں گے
امریکی ریاست الی نوائے کے معروف تجارتی شہر بولنگ بروک کو پاکستان کے تاریخی شہر سیالکوٹ کا ’سسٹر سٹی‘ بنانے کی حتمی منظوری دے دی گئی ہے۔ معاہدے پر دستخط کی تقریب ہفتے کو بولنگ بروک میں منعقد ہوگی۔
واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانے نے اس بات کی تصدیق کی ہے۔ اس سلسلے میں، پاکستانی سفیر اعزاز چوہدری بولنگ بروک جائیں گے۔
دونوں شہروں کو سسٹر سٹی بنانے کے لئے رپبلیکن پارٹی کے پاکستانی نژاد مقامی رہنما اور بولنگ بروک شہر کی معروف کاروباری شخصیت، طلعت رشید اور ان کی ٹیم گزشتہ دو برسوں سے کوششوں میں مصروف تھی۔
’سسٹر سٹی‘ معاہدے پر بولنگ بروک کے میئر راجر کلار اور پاکستانی سفیر اعزاز چوہدری دستخط کریں گے۔ اس موقع پر دونوں شہروں کے چیمبر آف کامرس کے نمائندوں کے علاوہ بڑی تعداد میں معززین شہر بھی موجود ہوں گے۔
بولنگ بروک امریکہ کا تیسرا شہر ہے جو کراچی اور لاہور کے بعد پاکستان کے تیسرے بڑے شہر سیالکوٹ کے ساتھ سسٹر سٹی معاہدے میں شامل ہو رہا ہے۔
اس معاہدے کے موقع پر بولنگ بروک شہر کی معروف تجارتی شاہراہ کا نام سیالکوٹ کے نام سے موسوم کیا جائے گا، جبکہ سیالکوٹ میں حاجی پورہ ڈسکہ روڈ کو بولنگ بروک اسٹریٹ کا نام دیا جائے گا۔
معاہدے کے نتیجے میں دونوں سسٹر سٹی کے درمیان طلبا اور تاجروں کے وفود کے تبادلے ہوں گے اور صنعتی ضروریات کے مطابق فنی تربیت کے مواقع بھی پیدا ہو سکیں گے۔
واضح رہے کہ امریکی شہر ہیوسٹن کراچی کے ساتھ اور شکاگو لاہور کے ساتھ پہلے ہی سسٹر سٹی معاہدے میں منسلک ہیں؛ جن کے درمیان وفود کے تبادلے اور ٹیکنالوجی کی منتقلی کے مختلف منصوبوں پر تعاون جاری ہے۔

Monday, 10 April 2017

سیالکوٹ: ’چائلڈ لیبر تو اب ماضی کا قصہ بن چکی‘

سیالکوٹ
پنجاب کا شہر سیالکوٹ یوں تو کھیلوں کا سامان بنانے کے لیے مشہور ہے تاہم یہاں کی صنعت اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ شہر میں قائم چھوٹےاور درمیانے درجے کے کارخانے بڑے پیمانے پر سرجیکل آلات اور چمڑے کی مصنوعات بھی تیار کرتے ہیں۔
یہاں تیار کی جانے والی زیادہ تر مصنوعات برآمد کی جاتی ہیں۔ ماضی میں سیالکوٹ میں بننے فٹبال ورلڈ کپ مقابلوں میں استعمال ہو چکے ہیں۔ تاہم زیادہ عرصے کی بات نہیں جب ایک وقت کی اس بڑی صنعت میں بڑے پیمانے پر کم سِن بچوں سے کام لینے کا انکشاف ہوا۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے کڑی تنقید کا سامنا کرنے کے بعد بڑی بین الاقوامی کمپنیوں نے یہاں فٹبال بنوانے کے آرڈر منسوخ کر دیے اور شہر کی صنعت کو بھاری مالی نقصان اٹھانا پڑا۔
شاید یہی وجہ تھی کہ بین الاقوامی فلاحی اداروں اور پاکستانی حکومت نے یہاں کے صنعت کاورں کے ساتھ مل کر شہر کی صنعت سے بچوں سے مزدوری کروانے کے عمل کو ختم کرنے کی منظم کوشش شروع کی۔ مگر کیا یہاں کی صنعت اب مکمل طور پر اس مسئلے سے پاک ہو چکی ہے؟
سیالکوٹ کے تاجروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی فٹبال بنانے کی صنعت کو ایک سازش کے تحت نشانہ بنایا گیا تھا۔ مسئلہ اتنا بڑا نہیں تھا جتنا دکھایا گیا۔ ’اور اب تو یہاں بچوں سے کام کروانے کا تصور ہی نہیں پایا جاتا۔‘
سیالکوٹ
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سیالکوٹ کے ایک صنعتکار اور سپورٹس ویئر یعنی کھیلوں کے لیے کپڑے بنانے کے ایک کارخانے کے مالک میاں عتیق کا کہنا ہے کہ اب آپ شہر کے کسی بھی کارخانے میں بغیر بتائے جا کر دیکھ لیں آپ کو کہیں بھی کم عمر بچے کام کرتے دکھائی نہیں دیں گے۔
’چائلڈ لیبر تو اب ماضی کا قصہ ہو چکی۔‘
تاہم اس مسئلے پر کام کرنے والے فلاحی اداروں کے ماہرین ان کی پہلی بات سے تو متفق ہیں مگر دوسری سے نہیں ہیں۔ کم عمر بچوں سے مزدوری اب بھی کروائی جاتی ہے مگر ایسا کارخانوں کے اندر نہیں بلکہ باہر ہوتا ہے۔
سیالکوٹ میں بچوں سے کام کی روک تھام کے لیے کام کرنے والے ادارے انڈیپینڈنٹ مانیٹرنگ ایسوسیئشن فار چائلڈ لیبر کے سربراہ ناصر ڈوگر نے بی بی سی کو بتایا کہ اب بھی سیالکوٹ میں کچھ صنعتیں ایسی ہیں جن میں بچوں سے کام لیا جاتا ہے اور ان میں سرِفہرست سرجیکل یعنی جراحی آلات بنانے کی صنعت ہے۔
’سرجیکل آلات کی تیاری چونکہ مرحلہ وار ہوتی ہے تو شروع کے مراحل میں بچے خاصی حد تک شریک ہیں۔ مگر یہ کام کارخانوں سے باہر ٹھیکوں پر کروایا جاتا ہے۔‘
کارخانوں کے اندر بچوں سے کام لینے کے حوالے سے قوانین موجود ہیں جن کے مطابق ایسا کرنے والے کو بھاری جرمانے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ تو بعض صنعتکار قوانین میں موجود جھول کا سہارا لیتے ہیں۔ وہ یہ کام باہر ٹھیکے پر دے دیتے ہیں۔
سیالکوٹ
ناصر ڈوگر کا کہنا ہے کہ گاؤں اور دیہاتوں میں بہت سی ایسی ورکشاپس موجود ہیں جہاں ٹھیکیداروں یا دکانداروں کے پاس بیٹھے بچے کام کرتے دکھائی دیتے ہیں مگر قوانین کا دائرہ کار صرف کارخانوں کے اندر تک محدود ہے۔
اس طرح بچے کام تو صنعتوں کے لیے ہی کرتے ہیں، مگر الزام ان پر نہیں آ سکتا اور بچے کارخانوں میں کام کرتے دکھائی بھی نہیں دیتے۔
آئی ایل او یعنی انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے ساتھ مل کر ناصر ڈوگر تقریباٌ دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے بچوں سے کام کی روک تھام کے حوالے سے سرگرم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بچے کسی بھی صنعت کی ضرورت ہرگز نہیں ہیں تو ان سے کام کیوں کروایا جاتا ہے؟
’اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ ان میں سے ایک تو اقتصادی وجہ ہے مگر یہ بنیادی وجہ نہیں ہے۔ ایک بڑی وجہ ہمارے ہاں دی جانے والی تعلیم ہے۔ بچوں کے والدین سمجھتے ہیں کہ یہ ان کے بچوں کو مستقبل میں کمائی کے مواقع کی یقین دہانی نہیں دیتی، اس لیے وہ کوشش کرتے ہیں کہ وہ بچوں سے کام کروائیں تاکہ ان کو کوئی ہنر آ جائے۔‘
سیالکوٹ کے تاجر بچوں سے کام کروانے کے حوالے سے نہ صرف تنقید کا نشانہ بنتے رہے ہیں بلکہ بھاری مالی تقصان بھی اٹھا چکے ہیں۔ تاہم اب وہ کافی خوشحال نظر آتے ہیں۔ شہر میں تاجروں کی شراکت سے بنا ایک ہوائی اڈا اور ان ہی کی بنائی ہوئی ایئر لائن بھی موجود ہے۔
تو سیالکوٹ کی تاجر برادری نے اس مسئلے کے حل کے لیے کیا اقدامات اٹھائے ہیں؟ میاں عتیق کا کہنا ہے کہ شہر کے صنعتکاروں اور تاجروں نے مل کر ایسے بچوں کے والدین کا معاشی بوجھ کم کرنے کے حوالے سے کام کیا ہے، تعلیم و صحت کی سہولیات کی فراہمی کے لیے سکول اور ہسپتال تعمیر کیے گئے ہیں۔
سیالکوٹ
’اس طرح بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں جس کے بعد وہ ٹریننگ سینٹرز میں آ رہے ہیں اور یہاں سے مکمل ٹریننگ لینے کے بعد ہم صنعتکار ان کو نوکری دیتے ہیں اور یہ ایک ایسا منصوبہ ہے جو مستقبل میں جاری رہے گا۔ یہی وجہ ہے کہ چائلڈ لیبر اب یہاں ختم ہو چکی ہے۔‘
ناصر ڈوگر کا ماننا ہے کہ سیالکوٹ کی صنعت خصوصاٌ فٹبال بنانے کی صنعت میں بچوں سے کام کروانے کے رجحان میں خاصی حد تک کمی دیکھنے میں آئی ہے تاہم یہ مسئلہ پوری طرح ختم نہیں ہوا۔
ان کا کہنا ہے کہ ایسے بچوں کی کل تعداد کے حوالے سے اندازہ لگانے کے لیے گزشتہ عرصے میں کوئی سروے یا تحقیق نہیں کی گئی، تاہم ایسا کرنے کی اشد ضرورت ہے خاص طور پر جراحی آلات بنانے کی صنعت میں، تاکہ یہاں کام کرنے والے بچوں کی صحیح تعداد کا اندازہ لگایا جا سکے اور اس کی روک تھام کے لیے اقدامات اٹھائے جا سکیں۔

Tuesday, 31 January 2017

NUST campus to be setup in Sialkot Government releases funds worth Rs 180 million


NUST campus to be setup in Sialkot  Government releases funds worth Rs 180 million


The Federal Government of Pakistan has released the essential preliminary funds to establish a dedicated campus of the National University of Sciences and Technology (NUST) in Sialkot, said the Federal Minister.


While talking to the Media in Islamabad, the Federal Minister for Defence, Water and Power, Khawaja Muhammad Asif, said that a special grant was released worth PKR 180 million was released as the first installment in order to setup the NUST’s campus in Sambrial, Sialkot. He further said that the campus would span over 150 acres of land that would be built using an approximate cost of Rs 4 billion.
The minister added that the campus would focus on advanced technology and engineering courses that would be specifically curated to the forthcoming needs of the industries that bear an export-oriented outlook.
The Member National Assembly Armughan Subhani,the Member Provincial Assemblies Muhammad Iram, Arshad Javaid Warraich, and Tariq Akhtar Subhani, the Sialkot District Council’s Chairperson Hina Arshad Warraich, Vice Chairman Ch Raza Subhani and Mayor Sialkot Municipal Corporation Ch Tauheed were also present on the occasion.