Pages - Menu

Thursday, 14 April 2016

Air Sial To Be Functional By Year End



The registration of directors for Air Sial, the international airline being launched in Sialkot by the Sialkot exporters under the supervision of Sialkot Chamber of Commerce and Industry (SCCI), has started. 

 Unseen Beauty Of Sialkot 
facebook.com/SialkotSialkotHaiYaar

However, airline would be operational at the end of the current year, announced Fazal Jillani, the patron-in-chief of Air Sial, while presiding over a meeting held at the auditorium of SCCI. He termed the beginning of the registration of the directors of the Air Sial an achievement for the Sialkot exporters, who will complete the mega project after the successful completion of Sialkot International Airport.
 Unseen Beauty Of Sialkot 
facebook.com/SialkotSialkotHaiYaar


He said that the official logo of the airlines would be unveiled soon. The Sialkot exporters also showed keen interest in this mega project of Air Sial during the meeting. 

The meeting was told that the several companies of Europe have contacted the management of the Air Sial for the provision of aircrafts. Air Sial management would prefer to buy Boeing 727-800 aircrafts to start its domestic and international flight operations, it was added.
 Unseen Beauty Of Sialkot 
facebook.com/SialkotSialkotHaiYaar

Jillani, who is also the former president of Sialkot Chamber of Commerce and Industry (SCCI), revealed that Sialkot exporters are enriched with the god-given spirit of self help for serving the nation in different sectors.

Wednesday, 13 April 2016

سیالکوٹ کا تاریخی قلعہ


سیالکوٹ کا تاریخی قلعہ 
ایک تاریخی عمارت جیسے قلعہ کہتے ہیں ۔یہ قلعہ سِل کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔کیونکہ اُس وقت کے راجہ کا نام سل تھا یہ قلعہ شہر کی حفاظت کے پیش ِ نظر تعمیر ہوا تھا ۔ایک تختی پر عبادت آویزاں تھی کہ یہ قلعہ پانچ ہزار سال پرانا ہے ۔میری اماّں اِس قلعے کے بارے میں ایک کہانی سنایا کرتی تھیں کہ چند واقعات و حقائق بھی منسلک ہیں دوہزار سال پہلے شہزادہ پورن کی سوتیلی ماں لُوناں ؔ پورن کے عشق میں گرفتار ہو گئی تھی ۔اِس نے پورن کو قابو کرنے کی کوشش کی لیکن اِس میں کامیاب نا ہو سکی 

۔کیونکہ پورن نیک صفت انسان تھا ۔ماں کو ماں کی حیثیت سے ہی دیکھتا تھا تب لوناں کے جھوٹے گواہوں اور جھوٹی چال کی وجہ سے اسی قلعہ میں پورن جیسے معصوم شہزادے کے ہاتھ کاٹ دینے کا حکم صادر کیا اور شہزادے کو اِسی قلعے کے قید خانے میں رکھا گیا اَب وہاں جناح ہال بنا ہوا ہے 

    Unseen Beauty Of Sialkot
facebook.com/SialkotSialkotHaiYaar
۔مجھے یاد ہے ایک بار کالج کے زمانے میں اسٹیج ڈرامہ جہیز کے نام سے یہاں دیکھا تھا ۔۔اِس قلعے کی سڑھیاں اتنی چوڑی ہیں کہ سنا کرتے تھے راجہ ہاتھی پر بیٹھ کر اِن سڑھیوں کے راستے اوپر تک جایا کرتا تھا

قلعہ کی شمالی دیوار تعمیر کے بعد اگلی صبح خودبخود زمین بوس ہو جاتی۔ اس صورتحال نے”راجہ“ کو سخت پریشانی سے 
دو چار کر دیا۔ بالاخر راجہ سل نے تنگ آکر ہندو پنڈتوں اور جوتشیوں کو اپنے دربار میں مدعو کر کے ان سے تذکرہ کیا اور قلعہ کی شمالی دیوار کے بار بار مسمار ہونے کی وجہ طلب کی۔ چنانچہ جوتشیوں اور نجومیوں نے کافی سوچ بچار کے بعد بتایا کہ اگر اس دیوار کی بنیادوں میں کسی مسلمان کا خون بہا دیا جائے تو یہ دیوار کبھی نہیں گرے گی۔ چنانچہ راجہ سل کے حکم پر اےک مسلمان کی تلاش شروع کر دی گئی۔ 

    Unseen Beauty Of Sialkot
facebook.com/SialkotSialkotHaiYaar
کافی تگ ودو کے بعد مراد علی نامی ایک نوجوان مسلمان تاریخی نالہ”ایک“ کے کنارے وضو کرتے پکڑا گیا جسے راجہ سل کے دربار میں پیش کر دیا گیا۔ آپ نے اپنے پکڑے جانے کی وجہ دریافت کی تو بتایا گیا کہ قلعہ سیالکوٹ کی شمالی دیوار کو برقرار رکھنے کی خاطر اسکی بنیادوں میں کسی مسلمان کا خون نچھاور کرنے کی ضرورت ہے جس پر آپ نے بذات خود اپنی اےک انگلی شہید کر کے اسکا خون قلعہ کی شمالی دیوار کی بنیادوں میں نچھاور کر دیا اور یوں قدرت خداوندی سے قلعہ سیالکوٹ کی شمالی دیوار تھم گئی جس سے راجہ اور اس کے ساتھی بے حد متاثر ہوئے راجہ نے سوچا کہ جس شخص کی انگلی کے خون میں اسقدر تاثیر ہے تو اس کے سر کے خون میں کیا قوت ہو گی۔ چنانچہ متفقہ فیصلہ کے بعد”مراد“ نامی مسلمان کو راجہ سل نے زبردستی شہید کروا کر ان کے سر مبارک کو زیر قلعہ سیالکوٹ کی شمالی دیوار میں دفن کر دیا گیا اور یوں دیوار اپنی جگہ پر قائم رہی اور بالآخر قلعہ سیالکوٹ پایہ¿ تکمیل کو پہنچ گیا۔ 
مراد علی المعروف شہید اوّل حضرت پیر مرادیہ کا مزار ہر اتوار سیالکوٹ کی شمالی جانب قلعہ سیالکوٹ پر ہی مرجع خلائق ہے اور مخلوق خداوندی انہیں پیر مرادیہ کے نام سے یاد کرتی ہے۔ آپ کا دربار دکھیا دلوں کا سہارا اور نامرادوں کا ملجا ہے جہاں حاضری دینے والوں کی دلی مرادیں پوری ہوتی ہیں اور ذہنی وقلبی سکون کی بے پایاں نعمت میسر ہوتی ہے۔ حضرت پیر مرادیہ کی والدہ ماجدہ کا مزار اقدس بھی آپ کے پہلو میں واقع ہے اور یوں ماں بیٹے کے مزارات اےک ساتھ ہونے کی یہ ملک بھر میں منفرد مثال ہے۔
 حضرت پیر مرادیہ کے قتل نا حق کا بدلہ عظم مجاہدو مبلغ اسلام آل مولا علیؓ کے سپوت، حضرت سید امام علی الحق شہید ( امام صاحب) نے راجہ سل سے جہاد بالسیف کیا اور اس سرزمین پر پرچم اسلام سر بلند کر کے یہاں سے کفروشرک کا خاتمہ کیا

    Unseen Beauty Of Sialkot
facebook.com/SialkotSialkotHaiYaar
۔ دربار عالیہ کے صحن میں حضرت پیر نوگزہ شہاب صاحب کا مزار جبکہ گدی نشیناں پر محمد شفیع۔ پیر سیداللہ دتہ شاہ، پیر سید طفیل شاہ صاحب، اور پیر سید مبارک علی شاہ صاحب کے مدفون بھی واقع ہیں۔ جہاں ہمہ وقت رحمت خداوندی کا نزول ہوتا رہتا ہے۔ راجہ سل کے خلاف جنگ کے دوران قلعہ سیالکوٹ کے دیوہیکل دروازے کوٹکر مار کر توڑنے والے مجاہد اسلام حضرت پیر سرخ روح شہید کا مزار اقدس بھی مرجع خلائق ہے۔۔ 
آنڈین آرمی کا ٹینک
 دربار عالیہ حضرت پیر مرادیہ 
کے پہلو میں کھڑے ہو کر طائرانہ نظر دوڑانے سے شہر کا خوبصورت منظر نظر آتا ہے

    Unseen Beauty Of Sialkot
facebook.com/SialkotSialkotHaiYaar

Monday, 4 April 2016

پروفیسرحافظ صابر صاحب رحمتہ اللہ آف بھوپال والا سیالکوٹ

اِنََّا لِلّٰہِ وٓاِنََّااِلَیٌُہِ رَاجِعُوٌنٓ
پروفیسرحافظ صابر صاحب رحمتہ اللہ آف بھوپال والا سیالکوٹ، بہت ھی عظیم عالم دین تھے۔ جو عالم باعمل تھے۔ مجھے یاد ھے میرے بچپن کا ایک واقعہ جب گوجرانوالا میں ھمارےُپڑوس میں فارس اسٹینڈرڈ اسکول جو میرا پرائمری سکول بھی تھا کے بزرگ وفات پا گئے تھے جو بہت عمر رسیدہ تھے ۔ ان کا نمازِ جنازہ ادا کرنےعلاقے کے سینکڑوں افراد اکٹھے ھوئے تو ھمارے محلے کے امام مسجد علامہ محمد اسلم چشتی صاحب جو کہ خود بھی ایک مشہور علامہ ھیں نے نمازِ ہُ جنازہ ادا کرنے کے بعد اپنی جگہ بظاہر ایک عام سے شخص کے لے چھوڑ دی۔ جناز گاہ میں شدید گرمی تھی اور سب لوگ حیران تھے کے علامہ صاحب نے یہ کس کو اجازت دے دی ھے
۔ وہ شخص ایک سادہ سے دیہاتی مزدوروں والے حُلِیے میں سب کے سامنے کھڑا ھو گیا۔ کچھ دیر ھم سب یہ سمجھتے رھے کے یہ شخص اپنی کسی ضرورت یا حاجت کے لیے اپیل کرنے والا ھے۔ کوئی اُن کی طرف زیادہ متوجہ نہیں تھا اور سب آپس میں باتوں میں مشغول ھو گئے جیسے جنازے کے بعد لوگ آپس میں باتوں میں مشغول ھو جاتے ھیں مگر جب جب وہ شخص اپنےعلم و حکمت انمول خزانے کھولتا گیا ساتھ ساتھ شھر کی عوام کی آنکھیں بھی کھولتا گیا اور دو تین منٹ تک پورے حال میں ایسا سناٹا چھا گیا جیسے کوئی موجود ھی نہیں ھے۔ صرف ایک ھی آواز اس دیھاتی سے شخص کی سب کے کانوں میں گونج رھی تھی۔ مجھے آج بھی یاد ھے وہ تقویٰ اور تقدیر اور موت کے بعد زندہ ھونے پہ بات کر رھے تھے۔ اور آخر اس کے ختم کرتے کرتے بیشمار لوگوں کے دل بدل چکے تھے تقریباً ھر آنکھ خوفِ خدا اشکبار تھی اور سب لوگ ایک بھترین عالم دین کی صحبت سے علم کے سینکڑوں موتی اپنے اپنے دامن میں سمیٹ چکے تھے۔ ان کا خطاب ختم ھوتے ھی ھر ایک کی زبان پے ایک ھی سوال تھا۔ یہ کون ھیں؟ یہ کہاں سے آے ھیں ؟ کیا یہ مولانا صاحب ھیں؟ کیا مولانا صاحب بھی اتنے سادہ لوح ھوتے ھیں ؟ وغیرہ وغیرہ - 
پھر معلوم ھوا یہ سیالکوٹ کے ایک کالج کے پروفیسر صاحب ھیں اور سنبھڑیال کے قریب ایک گاوں بھوپال والا کے رھنے والے ھیں- اِن کا نام پروفیسر حافظ صابر ھے۔اور جن بزرگ کا جنازہ تھا وہ پروفیسر خافظُ صابر صاحب کی مسجد بھوپال والا میں بڑی عقیدت کے ساتھ جایا کرتےُتھے۔ حافظ صاحب سے ھزاروں لوگ علم کی، عمل کی اور ایمان کی دولت سے فیض یاب ھویے ھیں۔ اسلام کے لیےان کی خدمات قابل ستائش ھیں۔ حافظ صاحب ھمیشہ ھی صرف دین کی بات کرتے تھے معاملات کی بات کرتے تھے اور کبھی فرقہءِواریت یا گُرو بندھی کی بات نہیں کرتے تھے۔حافظ صاحب ایک سچے عاشق رسول تھے۔ اللہ حافظ صاحب جیسے عظیم علماء کے علم و تدریس سے مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ مستفید ھونے کی توفیق آتا فرماے۔ 
یا اللہ تو مرحوم کی مغفرت فرما اور ان کے درجات اور بلند فرما، ان کی قبر کو منور فرما، ان کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرما اور ان کے جملہ پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرما۔ آمین ثم آمین
والاسلام
معظم علی سندھو ایڈووکیٹ۔ لندن